ترجمہ:عمران جاوید
انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ اور لیگ فار دی ففتھ انٹرنیشنل کا موقف
دنیا بھرمیں فلسطینی عوام کی حمایت میں اضافے اور صیہونی ریاست اسرائیل کی نسل کشی کی مخالفت نیزایک بڑی عوامی تحریک نے سامراج کی معاہدے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے کہ وہ ایک نئی لیکن غیر یقینی جنگ بندی کرادئے۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی عوامی تحریک کو کمزور کرنا اور صیہونیت کو دوسرے طریقے سے آگے بڑھنا ہے اور یہ سب فلسطینی قیادت کے ساتھ ایک رجعت پسندانہ معاہدے کی آڑ میں کیا جا رہا ہے۔
ہم غزہ کی آبادی پر دو سال سے جاری روزانہ کی بمباری کے خاتمے اور مجرمانہ ناکہ بندی کے ممکنہ اختتام پر ان کی خوشی کو سمجھتے ہیں اوراس میں شریک ہیں۔ اس ناکہ بندی نے انہیں ایک خطرناک انسانی بحران سے دوچار کر رکھا ہے لیکن ہمیں سچ بولنا ہو گا یہ فلسطینی مزاحمت کی فتح نہیں ہے جیسا کہ مختلف تنظیمیں غلطی سے دعویٰ کر رہی ہیں حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
یہ جنگ بندی جزوی طور پر غیر معمولی طور پر توانا عالمی عوامی تحریک کا نتیجہ ہے اس کے علاوہ غزہ کی مایوس کن صورتحال کے قابو سے باہر ہونے کا خطرہ بھی ایک وجہ ہے لیکن حماس اور اسرائیل نے جس معاہدے پر دستخط کیے ہیں وہ امریکہ کی مسلط کردہ شرائط کے تحت مذاکرات کے ذریعے طے پایا ہے۔ اگر اس کے 20 نکات عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ یہ خطے میں سامراج کی پالیسی کو قبول کرنے اور صیہونی قبضے کو جائز قرار دینے کی تجویز ہے۔

اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے سامراج کو قطر، مصر اور ترکی کا براہ راست تعاون حاصل تھا اور ساتھ ہی پوری مغربی سرمایہ دار اشرافیہ، عرب آمرانہ حکومتوں اور یہاں تک کہ روس اور چین نے بھی اس پر شادیانے بجائے۔
اگر سامراج اس معاہدے کو اس کے دوسرے مرحلے تک پہنچنے سے پہلے ناکام ہونے سے بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ جو پہلے ہی مکمل ہونے کے قریب ہے۔ غزہ کو ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹونی بلیئر کی سرپرستی میں ایک کٹھ پتلی حکومت کے تحت ایک امریکی زیرِ انتظام علاقہ میں تبدیل کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
اس معاہدے میں اسرائیل سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ غزہ سے اپنی فوجیں مکمل طور پر واپس بلائے یا مغربی کنارے میں اپنی نوآبادیاتی پیش قدمی کو ختم کرے۔ البتہ اس میں حماس سے کہا گیا ہے کہ وہ غیر مسلح ہو جائے اور “غیر سیاسی” فلسطینی ٹیکنوکریٹ” اور “بین الاقوامی ماہرین” کی ایک نئی حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہی ایک غیر ملکی فوجی قوت کے قیام میں جو پٹی کا انتظام سنبھالے گی۔
عالمی تحریک کا اثر اور حکمران طبقات کا رویہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ صیہونیت کے 7 اکتوبر کے حماس کے حملے کا نسل کشی کے ساتھ جواب دینے پر فلسطین کے حق میں ایک ایسی بین الاقوامی عوامی تحریک کا جنم ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ عمل اپنے تاریخی مرکز یعنی بائیں بازو کے حلقوں سے آگے بڑھ کر دنیا کے اہم سامراجی ممالک میں پھوٹ پڑا ہے۔ یہ تحریک امریکہ میں بہت بڑی ہے جہاں مختلف یونیورسٹیوں میں ریڈیکل کیمپ لگائے گئے اور یہودی برادری کے اہم حصوں نے صیہونیت سے تعلق توڑ لیاہے۔ آسٹریلیا اور یورپ میں لاکھوں لوگوں نے مارچ کیا۔ یہ سب اس کے باوجود ہوا کہ سامراجی ممالک کی بڑی ٹریڈ یونینیں اور سوشل ڈیموکریٹک جماعتیں اس تحریک سے لاتعلق رہیں یا درحقیقت انہوں نےاسرائیل کی حمایت جاری رکھی۔ مشرق وسطیٰ کے حکمران طبقہ (سوائے حوثیوں کے) اپنی عوام کو سڑکوں پر آ کر صیہونیوں اور ان مغربی ممالک کے خلاف ناکہ بندی کرنے سے سختی سے روکا جو اس “نسل کشی” میں ملوث فریق کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ گویا حکومتیں عوامی غصے اور جذبات کے مطابق کارروائی کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور عوام کو قابو کر رہی ہیں۔ کئی سامراجی ممالک میں فلسطینی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ہزاروں مظاہرین کو مجرم قرار دیا گیا یا یہاں تک کہ دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ تحریک بڑھی اور اٹلی میں حالیہ عام ہڑتال اور بندرگاہوں کی ناکہ بندی جو السمود عالمی فلوٹیلا سے اظہار یکجہتی میں کی گئی تھی اس نے دنیا کو حیران کر دیا اور ایک ایسی مثال بننا شروع ہو گئی جو پھیل سکتی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ساری دنیا کی سرمایہ دار ریاستوں کی حمایت کے باوجود عالمی عوامی حمایت کھو چکے ہیں ۔ یہ وہ سب سے اہم نتیجہ ہے جو فلسطینی مقصد نے حاصل کیا ہے۔ اسرائیل تاریخ میں اس سے پہلے کبھی بھی بین الاقوامی سطح پر اتنا الگ تھلگ، بدنام اور اتنی وسیع مذمت اور تنقید کا نشانہ نہیں بنا تھا۔
تاہم نسل کشی کے گہرا ہونے کے دو سال بعد بھی فلسطینی عوام 7 اکتوبر 2023 سے پہلے کی نسبت بہتر حالت میں نہیں ہیں۔ غزہ کو تباہ کر دیا گیا ہے اور صیہونیوں نے اس پر فوجی قبضہ کر رکھا ہے۔ کم از کم 67,000 فلسطینی جانیں ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں 20,000 بچے بھی شامل ہیں۔ دسیوں ہزار زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ مغربی کنارہ صیہونی آباد کاروں کے ہاتھوں مسلسل علاقہ کھو رہا ہے اور مشرقی یروشلم میں زندگی تیزی سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
حماس کی حکمت عملی اور اس کے اثرات
حماس کے 7 اکتوبر کے اقدام نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو “معمول پر لانے” کے عمل یعنی ابراہیمی معاہدوں کو روکنے کا اپنا فوری مقصد حاصل کر لیا لیکن حماس کی یہ توقع کہ اسرائیل پر اس کے حملے سے ان کے ساتھ معاہدہ پر مذاکرات کے لیے کافی دباؤ پڑے گا وہ پوری نہیں ہو سکی۔ نہ ہی ایک وحشیانہ اسرائیلی ردعمل پرایران کی بھرپور طاقت سے جواب کی امید پوری ہوئی۔ یہ واضح ہو گیا کہ ملاؤں کا نظام صرف اپنے سرمایہ دارانہ اورطبقاتی مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ عرب حکومتیں بھی فلسطین کی حمایت کرنے میں ناکام رہی ہیں اور موجودہ معاہدے کی حمایت کر رہی ہیں جو مزاحمت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر کے اسرائیل اور سامراج کے ساتھ تعلقات کو “معمول پر لانے” کی راہ پر واپس لانا چاہتا ہے۔
حماس کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ نسل کشی، غزہ کی تباہی اورقبضے کی صورت میں نکلا ہے اور اب رعایتوں پر مبنی ایک ایسے معاہدے کی شکل میں سامنے آیا ہے جو 30 سال قبل عرفات کے اوسلو میں دستخط کیے گئے معاہدے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ عوامی تحریکوں کے دباؤ پر سپین اور برطانیہ جیسے کئی ممالک نے دو ریاستی حل کے فریب کو دوبارہ زندہ کیا ہے جس کا ذکر معاہدے میں ایک مقصد کے طور پر بھی نہیں کیا گیا ہے۔
صیہونیت کو شکست دینا ہی واحد راستہ ہے
جب تک فلسطین کی تاریخی سرزمین پر ایک نوآبادیاتی، توسیع پسند اور نسل کشی کرنے والی ریاست موجود ہے کوئی فلسطینی ریاست ممکن نہیں ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ اس کا اہم منصوبہ فلسطینی عوام کی مکمل نسلی صفائی اور زیادہ سے زیادہ علاقوں کو فتح کر کے ایک “عظیم اسرائیل” کی تعمیر ہے۔
امن حاصل کرنے کے لیے اور جوفلسطینی عوام اور خطے کے تمام لوگوں کے لیے دیرپا ںاور انصاف پر مبنی ہو ہمیں سب سے پہلے صیہونی عفریت اوراس کی جاری نوآبادیاتی توسیع کو شکست دینا ہو گا۔ جب تک سامراجیوں کے تحت خون میں ڈوبی دہشت گرد ریاست اسرائیل موجود ہے واحد ممکنہ امن قبرستانوں کا امن ہو گا۔
صرف دریا سے سمندر تک ایک واحد، آزاد، سیکولر اور سوشلسٹ فلسطین کی تعمیر ہی سے خطے کے لوگ امن کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ حل نہ تو عرب سرمایہ داروں یا ایرانی ملاؤں کے ہاتھوں سے آئے گا اور نہ ہی کسی سامراجی طاقت کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے آئے گا۔ یہ صرف عرب محنت کش عوام کے ذریعے ممکن ہے جو ایک انقلاب کی قیادت کریں جو خطے کی سرمایہ دار حکومتوں کا تختہ الٹ دیں۔ صیہونی عفریت کو شکست دیں اور پورے مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ جمہوریہ کی ایک رضاکارانہ فیڈریشن قائم کرے۔
۔1948 میں فورتھ انٹرنیشنل عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کی واحد تنظیم تھی جس نے صیہونی ریاست کے قیام کے خلاف جدوجہد کی تھی۔
عرب ممالک کی بورژوا اور جاگیردار قیادت جو سامراج کے ایجنٹ ہیں ان کی وجہ سے ہم سامراج کے خلاف جدوجہد کے ایک مرحلے میں شکست کھا چکے ہیں۔ اب ہمیں اگلے مرحلے میں فتح کے لیے تیاری کرنی ہو گی یعنی فلسطین اور مشرق وسطیٰ کو یکجا کرنا ہوگا یہ مقاصد مشرق وسطیٰ کی متحد انقلابی پرولتاری پارٹی کو تعمیر کرکے ہی حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔ آج بھی ہم اس حکمت عملی کے حامی ہیں جن تنظیموں نے اس بیان کی حمایت کی ہے۔ لہٰذا ہم ان مقاصد سے اتفاق کرنے والے لڑاکا ورکرز کو کسی فرقہ واریت کے بغیر اکھٹے اورمنظم کرتے ہوئے خطے میں انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کرنے کی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں
SOURCE:
https://socialist-resistance.org
![]()